بسمہ تعالیٰ امام رضا(علیہ السلام) کے کلام میں توحید کے جلوے کاوش: سید غافر حسن رضوی (ریسرچ اسکالر ایم، آئی، یو، دھلی) خلاصہ امام رضا(علیہ السلام) کے کلام کی روشنی میں توحید کو سمجھنا انسانی فہم و ادراک کو نئی جہت دیتا ہے لہٰذا ہمارے مقالہ کا مقصد یہی ہے کہ حضرت ؑکے کلام کی روشنی میں توحید کو واضح کیا جائے۔ وحدانیت کو سمجھنے سے پہلے وحدانیت کا اثبات ضروری ہے، خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ’’ لَا إِلهَ إِلاّ هُوَ ‘‘ اس کے سوا کوئی الٰہ (پروردگار) نہیں ہے۔[1]خداوندعالم کی ذات ایسی لامحدود ہے کہ محدود فکربشری کا طائر پرواز کرتے کرتے دم توڑدے لیکن اس کی حدود تک رسائی ممکن نہیں ہے، جس طرح اس کی ذات لامحدود ہے اسی طرح اس کے علم وکمال کا احاطہ بھی محال ہے۔اس نے ہزارہا مخلوقات کو خلق فرمایا لیکن ہر مخلوق اپنے وجودمیں خالق کی خلقت کا ایک اکیلا شاہکار ہے، اس کی ذات عقل و خرد سے ماوراء ہے۔ خدا کو شیئیت سے خارج نہیں کیا جاسکتا ورنہ اس کی ذات سے انکار کے مترادف ہوگا لہٰذا انسان مجبور ہے کہ اس کو شئے تسلیم کرے اور اس کی گواہی قرآن کریم بھی دیتا ہے۔ ذات خداوندی، ایسی لامحدود ذات ہے جو کسی مکان میں نہیں سما سکتا یہی سبب ہے کہ اس کا کوئی مکان نہیں ہے؛ خانۂ کعبہ کو اس کا گھر کہا جاتا ہے لیکن اس کی ذات اس سے کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے کہ وہ کسی مکان میں رہے۔ اس کی ذات جبر و تفویض سے مبرّا ہے، جبر و تفویض کو سمجھنے کے لئے اس کے معصوم نمائندوں کا سہارا لینا پڑے گا، جبر یا تفویض کا تسلیم کرنا عدالت الٰہی پر خدشہ لاحق کرتا ہے۔ کلیدی الفاظ: توحید، اللہ، خالق، رازق، عادل،مخلوق، جبر، تفویض، غالی، مفوضہ،شرک، کفر، مشرک، کافر۔
مقدمہ توحید، ایک ایسی شئے ہے جو انسانی فہم و خرد اور قوت ادراک سے ماوراء ہے یہی وجہ ہے کہ ہر کس و ناکس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ چونکہ توحید، انسانی فہم و خرد سے ماوراء شئے ہے اسی لئے غیراقوام تو درکنار خود امت مسلمہ کی سمجھ میں بھی نہ آسکی، یہی سبب ہے کہ کسی نے ساق الٰہی کو ثابت کردیا، کسی نے خدا کا چہرہ بنادیا، کسی نے عرش و کرسی سے مراد ظاہری کرسی کو لے لیا؛ کسی نے دوزخ میں خداوند عالم کا پورا پیر(خدا کی ٹانگ) ہی پہنچادیا اور اس کا سبب یہ بتایا کہ جہنم کی بھوک خدا کی ٹانگ سے ہی مٹ سکتی ہے؛ حالانکہ خداوندعالم کی ذات ان ظاہری اشیاء سے کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے۔ خدا، اس ذات کا نام ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا، وہ ظاہری آنکھوں کا حامل نہیں لیکن اس سے کوئی شئے مخفی نہیں ہے؛ ظاہراً اس کے کان نہیں ہیں لیکن مخلوق کی رازدارانہ باتیں بھی سنتا ہے، انتہا یہ ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں کی آواز بھی سنتا ہے اور اگر مصلحت سمجھتا ہے تو ان کی حاجت روائی بھی کرتا ہے۔ توحید اور شرک میں صرف بال برابر فرق ہے، اسی لئے کہاجاتا ہے کہ مسلمان کے کلمہ کا پہلا جملہ عین شرک ہے اور دوسرا جملہ عین توحید، اگر انسان صرف ’’لا الہ‘‘ کہہ کر ہی خاموش ہوجائے تو وادی شرک میں دھنستا چلا جائے گا لہٰذا مسلمان ہونے کے لئے ’’لا الہ‘‘ سے متصل ’’الا اللہ‘‘ بھی کہنا ضروری ہے۔ اگر حقیقت توحید کا ادراک درکار ہے تو ہمیں ایسے رہنماکی ضرورت پیش آئے گی جس نے خود توحید کا ادراک کرلیا ہو!اور جیسا کہ ہم نے آغاز گفتگو میں بیان کیا کہ توحید کا ادراک ہرکس و ناکس کے بس میں نہیں ہے تو ہمیں ایسے رہبر کو تلاش کرنا چاہئے جو ایک ہی وقت میں خالق و مخلوق دونوں کے درمیان رابطہ کی حیثیت رکھتا ہو اور وہ ایک نہیں بلکہ پورا گھرانہ رہبروں سے مملو نظر آتا ہے۔اسی سلسلہ کی ایک کڑی امام ضامن و ثامن حضرت امام رضا علیہ السلام ہیں جن کے سامنے مشرکین و مخالفین کے سردار مناظرہ کرنے آتے تھے لیکن منھ کی کھاکر رہ جاتے تھے، اگر ذرا سی شمع ایمان روشن ہوتی تھی تو توحید کی جانب میلان پیدا ہوجاتا تھا۔ امام رضا(علیہ السلام)کے مختلف مناظرے ملتے ہیں جن میں امام ؑنے توحیدکے جلوے رونما کئے ہیں۔ ان میں سے کچھ پہلوؤں کی جانب اشارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۱) وحدانیت کے جلوے۱۔۱) — وجود خداوحدانیت کو سمجھنے سے پہلے وحدانیت کا اثبات ضروری ہے، خدا وندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ’’ لَا إِلهَ إِلاّ هُوَ ‘‘ اس کے سوا کوئی الٰہ (پروردگار) نہیں ہے۔[2] یہ آیت توحید الٰہی کا منھ بولتا ثبوت ہے جو صراحتاً اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہی ایک ذات ہے جو نظام کائنات کو چلارہی ہے اور اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ امام رضا(علیہ السلام)نے وجود خدا پر دلیل دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ انسانی جسم کے اندرونی و بیرونی اعضاء، کچھ اس ترتیب سے قرار دیئے گئے ہیں کہ ان میں نہ تو کسی چیز کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کمی کی جاسکتی ہے۔ ہم اپنے جسم پر وارد ہونے والے نقصان کو نہیں روک سکتے اور نہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ گردش لیل و نہار، نور شمس و قمر، تمام انہار و اشجاروغیرہ کے وجود سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ہے جو ان تمام چیزوں پر تسلط رکھتا ہے کیونکہ یہ تمام چیزیں بغیر خالق کے وجود میں نہیں آسکتیں۔[3] ظاہر سی بات ہے کہ جب اس دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بغیر بنانے والے کے وجود میں نہیں آسکتی تو اتنی بڑی کائنات بغیر خالق و ناظم کے کیسے وجود پاسکتی ہے اور کس طرح قائم رہ سکتی ہے!‘‘۔ ۱۔۲) — توحید کا ادراکتوحید کا ادراک کرنے کے لئے ہمیں معصوم سہاروں کی ضرورت درپیش ہے، اگر ہم امام رضا (علیہ السلام)کے مناظروں سے ماخوذ چیز کو بیان کریں تو آپؑ کی گفتگو کا مفہوم یہ ہوگا: ’’ اس نے تمام مخلوقات کو اپنے ارادہ کے مطابق جیسے چاہا خلق فرمایا، اس تک نہ تو وہم و گمان کی رسائی ہے نہ ہی طائر فکر اس کی منزل کا ادراک کرسکتا ہے؛ قوت بصارت کے مشاہدہ سے ماوراء ہے؛ زبان اس کی تعریف کے آگے گُنگ ہے، اس کا محاسبہ ممکن ہی نہیں، وہ بغیر پردہ کے بھی (چشم بینا سے) پردہ میں ہے، اس کی حمدوستائش بغیر دیدار کے ہی کی گئی ہے‘‘۔[4] اس تناظر میں حقیقت توحید کا ادراک محالات کی منزلوں میں ہے۔ یہاں سے رسول خدا ﷺ کا یہ قول سمجھ میں آتا ہے:’’یا علی لایعرف اللّه تعالی الّا انا و انت و لایعرفنی الّا اللّه و انت و لا یعرفک الّا اللّه و انا‘‘ یعنی 'اے علی! تمہیں نہیں پہچانا مگر میں نے اورخدا نے، مجھے نہیں پہچانا مگر تم نے اور خدا نے، خدا کو نہیں پہچانا مگر میں نے اور تم نے ،،۔[5] پیغمبران الٰہی اور ائمہ اطہارعلیہم السلام کی اقوال زرّیں سے ثابت ہے کہ خداوندعالم کی معرفت نہایت لطیف و عمیق شئے ہے جس تک طائر فکر کی پرواز ناممکنات میں سے ہے، جب اس کا ادراک فکر و شعور سے ماوراء ہو تو اسے ظاہری آنکھوں سے کیسے دیکھا جاسکتا ہے!۔ ۱۔۳) — خدا کی خلاقیت میں یکتائیاگر توحید کے پیرائے میں دیکھا جائے تو خالق بھی ایک ہی ہے جس نے پوری کائنات کو خلق کیا ہے، لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر امام رضا (علیہ السلام) کے نورانی کلام کو دیکھا جائے تو تفصیل معلوم ہوتی ہے، حضرت ؑنے فرمایا: ’’ خالق بمعنای عموم، خدا کے علاوہ بھی موجود ہیں جس پر سورۂ مومنون کی آیت؍۱۴ گواہ ہے، اس آیت میں خالق کی جمع بیان ہوئی ہے: ’’فَتَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ،، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خالق یکتا کے علاوہ بھی خالق موجود ہیں اور اس کے نمونے مثلاً جناب عیسیٰ ؑ گیلی مٹی سے پرندے بنایا کرتے تھے اور اذن خداوندی کے تحت وہ پرندے پرواز کرنے لگتے تھے اور اگر شیطانی دنیا میں دیکھا جائے تو سامری جادوگر نے بنی اسرائیل کے لئے ایک گوسالہ بنایا تھا جو بولا کرتا تھا‘‘۔[6] لیکن اگر خالق بمعنای خاص دیکھا جائے تو خداوند عالم کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے کیونکہ وہی تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ وحدہ لاشریک ہے، اگر اس کے کام میں کوئی شریک ہوتا تو دنیا کا نظام ایک جگہ قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ ۱۔۴) — زمین اور آسمان کا خدا،ایک ہی ہےکچھ کج فہم افراد جو حقیقت توحید کو درک نہیں کرپاتے وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی خدا ایک ہی وقت میں آسمانوں پر بھی ہو اور زمینوں پر بھی؟ تو اس کے جواب میں ہم امام رضا(علیہ السلام) کا قول نقل کرتے ہیں: ’’ اس بات پر قرآن کریم کی متعدد آیات گواہ ہیں کہ آسمان پر نیز زمین پر خدائے واحد کے ماسوا کوئی خدا نہیں ہے، مثال کے طور پر سورۂ زخرف کی آیت/۸۴: ’’وَ ھُوَالَّذِیْ فَیْ السَّمَآءِ اِلٰہ وَ فَیْ الْاَرْضَ اِلٰہ،، وہی ہے جو آسمان میں خدا ہے اور وہی زمین میں خدا ہے۔ اسی طرح سورۂ فصلت آیت/۱۱، سورۂ بقرہ آیت/۲۹سورۂ حدید آیت/۴، سورۂ آل عمران آیت/۶،سورۂ انعام آیت/۳ بھی اسی بات کو ثابت کرتی ہیں کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کا خدا ایک ہی اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہو یا خدائے وحدہ لاشریک کے ساتھ کسی طرح کی مشارکت کی ہو۔‘‘ اگر اس کے امور میں کوئی شریک ہوتا توہرمقام پرتنازع پیش آتا مثلاً: ایک نے آسمان کا رنگ نیلا بنایاتو دوسرا اس کی مخالفت کرتا اور کہتا کہ نہیں اس کا رنگ گلابی ہونا چاہئے، زمین کا رنگ خاکی کیوں ہے اس کا رنگ لال ہونا چاہئے، اسی طرح دیگر اشیاء؛ گویاکہ اگر خالق وحدہ لاشریک کے امورمیں کوئی دوسرا خدا شریک ہوتا تو نظام کائنات درہم برہم ہوجاتا جو مخلوقات کے لئے مضر ثابت ہوتا ۔ ۱۔۵) — خدا پر ایمانہر انسان بالخصوص مسلمان کا فریضۂ عینی ہے کہ خدا،اس کے رسول اور اس کی حجتوں پر ایمان رکھے، قرآن کریم کے سورۂ بقرہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئےارشاد خداوندی ہوتا ہے:’’الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ؛ والَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ؛ أُوْلَـئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔متقین وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے مال سے انفاق کرتے ہیں؛ وہ ان چیزوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو کچھ ہم نے تم(رسول)پر نازل کیا ہےاور اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تم سے پہلے والوں پرنازل کیا جاچکا ہے؛ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں‘‘۔[7] امام رضا (علیہ السلام) کی گفتگو میں یہ جلوہ کچھ اس طرح نظر آیا: ’’ اگر ان تمام چیزوں پر ایمان نہ ہو، انسان کو بے لگام گھوڑے کی مانند چھوڑ دیا جائے، وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، جس کو چاہے اذیت دے، جسے چاہے خوش کرے اور خدا کی رضایت کا کچھ خیال نہ ہو، اپنے دل کے مطابق کسی کا مال لوٹ لے، زمین پر فتنہ و فساد برپا کرے، غرض کسی قسم کے گناہ سے پرہیز نہ کرےتو دنیا ویران ہوجائے گی۔ دنیا کو تباہی سے محفوظ رکھنے کے لئے ان تمام چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ چوری چھپے فسادات کو انجام دیتے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے اندر خوف خدا نہیں ہے حالانکہ انسان کو باطنی طور پر بھی وجود خدا پر یقین رکھنا واجب ہے یعنی جس طرح ظاہری طور پر تمام مذکورہ چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح باطنی طور پر بھی ایمان رکھنا ضروری ہے‘‘۔ ۱۔۶) — ذات خدا، جسم سے مبرّاکچھ لوگ کج فکری کی بنیاد پر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر خداوندعالم جسم و جسمانیت سے مبّرا و منزّہ ہے تو پھر ان آیات کا کیا مطلب ہے جو خدا کے جسم کی جانب اشارہ کرتی ہیں، اس طرح کے سوالات صرف شیطانی اذہان میں ہی سر اٹھاتے ہیں لیکن پروردگار عالم نے ان شیطانی افکار کا جواب دینے کے لئے اپنے نمائندوں کو بھیجا ہے؛ اگر یہ سوال کیا جائے تو امام رضا (علیہ السلام) کی گفتگو میں اس کا جواب اس طرح ملتا ہے: ’’ وہ آیات جو بظاہر جسمانیت خداوندی پر دلالت کرتی ہیں وہ در حقیقت اپنے اندر دوسرے معنی سموئے ہوئے ہوتی ہیں جس کو باطن قرآن کا نام دیا جاتا ہےمثال کے طور پر سورۂ انعام آیت؍۱۰۳: ’’لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ‘‘ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں مگر وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے؛ اس میں آنکھوں سے مراد انسان کی ظاہری آنکھیں نہیں ہیں کیونکہ ظاہری آنکھوں کی بینائی محدود ہوتی ہے اور وہ بعض دنیاوی چیزوں کو دیکھنے سے بھی قاصر ہیں بعنوان مثال ہوا، گیس وغیرہ؛ لہٰذا یہاں مراد باطنی آنکھیں ہیں یعنی انسان کے دل و دماغ۔ اسی طرح سورۂ قیامت کی آیت؍۲۳: ’’اِلیٰ رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ‘‘ میں خدا کو دیکھنےسے مراد یہ نہیں کہ خدا مجسم ہوکر سامنے آئے گا اور ہم دیکھیں گے بلکہ اس سے مراد خداوند عالم کی رحمت اور اس کے ثواب کا انتظار کرنا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی دیگر آیات جو جسمانیت خدا کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان سے مراد خدا کا جسم نہیں بلکہ ہر آیت کے معنوی و باطنی معنی مراد لئے گئے ہیں‘‘۔ ۱۔۷) — خدا کا مکانذات خداوندی، ایسی لامحدود ذات ہے جو کسی مکان میں نہیں سما سکتا یہی سبب ہے کہ اس کا کوئی مکان نہیں ہے؛ خانۂ کعبہ کو اس کا گھر کہا جاتا ہے لیکن اس کی ذات اس سے کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے کہ وہ کسی مکان میں رہے۔ امام رضا (علیہ السلام) نے خدا کے مکان کے متعلق فرمایا: ’’خداوندعالم نہ تو غائب ہے اور نہ مکان کا محتاج ہے۔[8]؛ وہ خالق مکان ضرور ہے لیکن اسے مکان کی احتیاج نہیں بلکہ وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔[9]؛ وہی آسمانوں کا باقی رکھنےوالا ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ ہر مخلوق اسی کی محتاج ہے‘‘۔[10] مکان کی ضرورت، مخلوق کو ہوتی ہے؛ خلاق دوجہاں مکان کا نیازمند نہیں ہے۔ ظاہری جسم کو مکان کی ضرورت لاحق ہوتی ہے لیکن خداوندعالم کا جسم ظاہری موجود نہیں ہے تو اسے مکان کی کیا ضرورت! عرش و کرسی سے مراد بھی ظاہری کرسی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ’’بلندی‘‘ ہے جیساکہ آیات و روایات سے ثابت ہے۔ ۱۔۸) — خدا، زمان کا محتاج نہیںخداوندعالم کی ذات کب سے ہے؟ کون سے زمانہ سے ہے؟ وہ کب وجود میں آیا؟ اور ان جیسے دیگر سوالات جہالت کی علامت ہیں کیونکہ اس کی ذات ازلی و ابدی ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا؛ وہ اُس وقت بھی تھا جب کچھ نہیں تھا اور اُس وقت بھی رہے گا جب کچھ نہیں رہے گا۔ امام رضا(علیہ السلام) نے اس ضمن میں فرمایا: ’’ خدا کب سے ہے، خود یہی سوال، ایک اور سوال پیدا کرتا ہے کہ وہ کون سا زمانہ تھا جس میں خدا موجود نہیں تھا؟ ظاہر سی بات ہے کہ وہ ہرزمانہ میں موجود تھا، وہ کسی زمانہ کا محتاج نہیں ہے؛ اگر یہ کہاجائے کہ فلاں زمانہ میں موجود نہیں تھا تو اس کے لئے دلیل کی ضرورت پیش آئے گی۔ خداوند عالم مکان و کیفیت سے نہیں پہچانا جائے گا کیونکہ اسے مکان وزمان اورکیفیت درکار نہیں ہیں۔ مکان وزمان اور کیفیت کا تعلق مخلوق سے ہے نہ کہ خالق کائنات سے، جب ان چیزوں سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے تو سوال ہی لاحاصل ہے‘‘۔[11] آخر ایسا کیسے ممکن ہے کہ کوئی انسان یہ دعویٰ کرے کہ فلاں زمانہ میں خدا موجود نہیں تھا! حالانکہ انسان مخلوق ہے یعنی خدا کے بعد وجودمیں آیا ہے کیونکہ اس کو وجود دینے والا خود خداوندعالم ہی ہے؛ مخلوق اپنے خالق سے پہلے وجود میں نہیں آسکتی۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ انسان مخلوق ہے اور یہ معترض بھی اسی کی مخلوق ہے تو اس کو اپنی خلقت سے پہلے کا علم کیسے ہوگیا جو خداوندعالم کے وجود و عدم پر بحث کرنے لگا!! جب یہ مخلوق ہے تو خدا اس سے پہلے موجود تھا لہٰذا اس کو یہ کہنے کا حق ہی نہیں ہے، یہ تو بس اپنی خلقت کے بعد والے زمانہ کے متعلق بحث کرسکتا ہے۔ ۱۔۹) — خدا کا شئے ہوناخداوندعالم کو شئے تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے کیونکہ اگر خدا کے شئے ہونے سے انکار کردیا جائے تو اس کی ذات سے انکار کے مترادف قرار پائے گا اور انسان زمرۂ ایمان سے نکل کر کفر کی وادیوں کا مسافر بن جائے گا۔ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: ’’ کلام الٰہی کے مطابق، خداوند عالم شئے ہے؛ جیسا کہ سورۂ انعام آیت؍۱۹: ’’قُل اَیَّ شَئیٍ اَکْبَرُ شَھَادَۃً قُلِ اللہُ شَھِیْدٌ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ‘‘ (اے میرے رسول!) کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا کی گواہی کافی ہے۔ اس آیت کے تناظر میں خداوند عالم شئے ہے لیکن باقی چیزوں کی مانند نہیں ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اگر ہم خدا کے شئے ہونے سے انکار کردیں تو اس کی ذات کی نفی ہوجائے گی‘‘۔[12] اس کی ذات کو تسلیم کرنا ایمان اوراسلام کی نشانی ہے، اگر اس کی ذات سے انکار کردیا تو دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائیں گے لہٰذا اگر مسلمان رہنا ہے تو اس کے وجود کا اقرار کرنا پڑے گا اور اس اقرار کا لازمہ ہےکہ اس کو شیئیت سے خارج نہ کیا جائے۔ ۱۔۱۰) — خدا کی سماعت و بصارتخداوندعالم ظاہری آنکھوں یا ظاہری کانوں کا مالک نہیں ہے کیونکہ ظاہری آنکھیں اور کان انسانی جسم کا لازمہ ہے اور خدا کی ذات انسان نہیں بلکہ خالقِ انسان ہے۔ امام رضا (علیہ السلام) کے اقوال زرّیں میں ملتا ہے: ’’وہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے لیکن اس کا سننا اور دیکھنا مخلوق کی مانند نہیں ہے، وہ تاریکی شب میں کالے ذرات کو بھی دیکھتا ہے اور سمندر کی گہرائیوں کی تہہ تک مشاہدہ کرتا رہتا ہے، کسی مخلوق کی صدا اس سے مخفی نہیں ہے، یہی سبب ہے کہ ہم کہتے ہیں: وہ بغیر کان کے سنتا ہے‘‘۔[13] وہ جسم ہی نہیں رکھتا کہ اس کی آنکھوں یا اس کے کانوں کا تصور کیا جائے، آنکھ اور کان دونوں چیزیں اعضائے جسم میں شمار ہوتی ہیں جو جسم کے بغیر بے معنی ہیں، انسان کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ظاہری جسم کامالک ہے لیکن خداوندعالم کا ظاہری جسم نہیں ہے جو ہماری ظاہری آنکھوں سے دیکھا جاسکے۔ ۱۔۱۱) — مختلف شکلوں میں خلقت کا سببخداوندعالم نے ہزارہا مخلوقات کو خلق فرمایا ہے لیکن ہر مخلوق اپنی شکل و صورت میں اکیلی ہے، اگر یہاں پر یہ سوال سر اٹھائے کہ خدا نے تمام مخلوقات کو ایک ہی شکل میں کیوں خلق نہیں فرمایا تو امام رضا(علیہ السلام) اس کا جواب اس طرح دیں گے: ’’مختلف صورتوں کا سبب یہ ہے کہ کوئی اس کی بابت بدگمان نہ ہوجائے کہ وہ شکل و صورت بنانے میں عاجز ہے اور وہ صرف ایک ہی صورت بنانا جانتا ہے۔ مختلف النوع اورمختلف شکل و صورت میں مخلوقات خدا کا وجود دلیل ہے کہ وہ ہر کام پر قادر ہے‘‘۔[14] دوسرا سبب یہ ہے کہ اس نے اپنی مخلوقات کی مشکلات کو پیش نظر رکھا کیونکہ اگر سب لوگ ایک ہی صورت کے ہوجاتے تو یہ معین کرنا محال ہوجاتا کہ کون سا جسم کون سےنام سے منسوب ہے!۔اِس کا کیا نام ہے، اُس کا کیا نام ہے۔ ۱۔۱۲) — خداوندعالم کے ارادہ کا مطلبہمارا ارادہ ایک سکنڈ میں بنتا ہے اور دوسری سکنڈ میں ٹوٹ جاتا ہے تو کیا ارادۂ الٰہی بھی انسانوں کے ارادوں کی طرح ہوتا ہے کہ کبھی بنا اور کبھی ٹوٹ گیا؟ اس کو سمجھنے کے لئےامام رضا (علیہ السلام) کے قول مبارک کو سمجھنا پڑے گا: ’’ اس کا ارادہ مخلوق کے ارادہ سے جدا ہے، مخلوق کا ارادہ ایک نیت ہے جو خود مخلوق کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ عملی جامہ پہنتی ہے لیکن خالق کا ارادہ انسانوں کی نیت جیسا نہیں ہے بلکہ وہ کن فیکون کا مالک ہے، اس کا ارادہ ہی ایجاد اور خلاقیت ہے،اگر وہ سوچتا ہے کہ فلاں چیز ہوجائے تو وہ ہوجاتی ہے کیونکہ وہ ایسی ذات ہے جو تفکر اور قصد سے مبرّا و منزّہ ہے کیونکہ تفکر اور قصد، صرف مخلوقات سے متعلق ہے، یہ تمام چیزیں محدود ہیں اور خداوند عالم کی ذات لامحدود ہے، جو ذات عقل و شعور سے ماورا ہو اس کے لئے محدودیت کا تصور بھی محال ہے‘‘۔[15] قرآن کریم کے مطابق عالم و جاہل برابر نہیں ہوسکتے تو خالق و مخلوق کیسے برابرہوسکتے ہیں! ایک نے خلق کیا دوسراخلق ہوا؛ ایک نے خلقت کے اثر کو وجود دیا دوسرے نے خلقت کے اثر کو قبول کیا؛ بنانے والا اور بننے والا برابر نہیں ہوسکتے تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا ارادہ بھی ہم ناتواں انسانوں کی مانند ہے!۔ ۱۔۱۳) — خداوندعالم کی مقرب ترین مخلوقانسانی ذہن اس قابل نہیں کہ وہ خداوندعالم کی مقرب ترین مخلوق کو معین کرسکے، اس کوسمجھنا ہے تو امام رضا (علیہ السلام) کے قول مبارک سے تمسک اختیار کرنا ہوگا، آپ ؑنے فرمایا: ’’ اگر تقرب سے مراد، ظاہری فاصلہ ہے تو خداوند عالم کے لئے تمام مخلوقات یکساں اور مساوی ہیں، اس کی ذات سے بعید ہے کہ وہ بعض مخلوقات میں الجھ کر بعض دیگر مخلوقات سے روگردانی کرلے! بلکہ جس طرح اعلیٰ مخلوقات کا خیال رکھتا ہے اسی طرح پست ترین مخلوقات کا بھی خیال رکھتا ہے اوراس کام میں وہ نہ تو کسی سے مشورہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی کی مدد کا محتاج ہے۔ اگر اس تقرب سے مراد ، وسیلہ ہے تو جو سب سے زیادہ مطیع پروردگار ہوگا وہی مقرب بارگاہ الٰہی قرار پائے گا یعنی اس تقرب کے درجات ہیں، جو جتنا فرامین الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا وہ اتنا ہی اس سے نزدیک ہوگا‘‘۔[16] خداوندعالم عالم نے انسان کو ایسی مخلوق بنایا ہے کہ اگر وہ چاہےتو فرشتوں سے برتر ہوجائے اور اگر چاہے تو حیوانوں سے بدتر ہوجائے، انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ اطاعت ربانی کے زیرسایہ مسجود ملائک قرار پائے یا اطاعت شیطانی کے سائے میں زندگی بسر کرکے حیوان سے بدتر ہوجائے۔ ۱۔۱۴) — علم الٰہیجس طرح ذات خداوندی لامحدود ہے اسی طرح اس کا علم بھی ہرقسم کی محدودیت سے خارج ہے، وہ کسی محدودیت میں سمانے والا نہیں ہے۔ امام رضا (علیہ السلام) نے اس کو سمجھاتےہوئے فرمایا: ’’ یہ تو مخلوق الٰہی کی خاصیت ہے کہ ماضی کو جانتا ہے اور مستقبل کو نہیں جانتا، وہ تو ایسی ذات ہے کہ اس کے نمائندے بھی علم غیب کے مالک ہوتے ہیں؛ وہ ایسی ذات ہے جسے مستقبل کا علم بھی ماضی کی طرح ہی ہے اور اس کی سب سے اچھی دلیل وہ مقام ہے جب خدا نے زمین پر اپنا خلیفہ بنانےکا ارادہ کیا تو فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین پر ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو فتنہ و فساد برپا کرے! حالانکہ ہم تیری تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں!! تو فرشتوں کے جواب میں خدا نے فرمایا: ’’اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔[17] اس کا مطلب صاف ہے کہ خدا کے لئے ماضی اور مستقبل دونوں برابر ہیں، ماضی و مستقبل تو انسانوں کے لئے ہیں اور انسان، مخلوق ہے؛ خالق،مخلوق سے کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے۔ ۱۔۱۵) — توصیف الٰہیہمارا منھ اس قابل نہیں کہ خداوندعالم کی حمد و ستائش اور اس کی توصیف کا حق ادا کرسکے، جب اس کی ذات ہماری فہم و خرد سے ماوراء ہے تو اس کی تعریف زبان سے کس طرح ممکن ہوسکتی ہے!۔ امام رضا (علیہ السلام) نے اس چیز کو اپنے قول سے اس طرح سمجھایا ہے: ’’ اس کی توصیف کا حق ہرگز ادا نہیں ہوسکتا! کیونکہ توصیف اسی کی ممکن ہے جو محدود ہو، چاہے اس کی حد کم ہو یا زیادہ لیکن خدا وند عالم اس ذات کا نام ہے جس کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے، وہ لامحدود ہے اور اس کی ذات کے لئے ایسے احتمالات کی گنجائش نہیں ہے‘‘۔[18] انسان چاہے کسی کی بھی تعریف کرے، اپنی استطاعت کے مطابق ہی تعریف کرتا ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری جانب سے کی ہوئی خداوند عالم کی تعریف سے خدا کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس کی ذات ان تعریفوں سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے لیکن بندگی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی حیثیت کے مطابق اپنے خالق کی حمد و ستائش کرے کیونکہ اس حمد سے چاہے خدا کو کوئی فائدہ نہ پہنچے مگر خود انسان کو ضرور فائدہ پہنچے گا کیونکہ خدانے وعدہ کیا ہے کہ جتنا شکر کرو گے اتنا ہی نعمتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ ۱۔۱۶) — معرفت خدا کا کمترین مرتبہاس میں کوئی دورائے نہیں کہ خدا کی شناخت انسانی ذہن و فکر سے ماوراء ہے لیکن اس کی معرفت کا سب سے کم مرتبہ تو حاصل ہوجائے تاکہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کی شناخت حاصل کرسکیں!۔ اس کے جواب میں امام رضا (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا: ’’خدا شناسی کا سب سے چھوٹا مرتبہ یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کا اقرارکریں، یہ قبول کریں کہ اس کی نظیر و مثل ناممکن ہے، وہ قدیم و ازلی ہے، اس کے لئے فنا نہیں ہے، ا س کی مانند کوئی چیز نہیں ہے، وہ ہمیشہ سے تھا اورہمیشہ رہے گا۔[19] ابدی و ازلی ہونا خدا وند عالم کی صفات میں سے ہے، وہ ہمیشہ تھا اور ہمیشہ رہے گا؛ اگر انسان یہ باتیں اپنے دل سے قبول کرلے تو اس کی عاقبت بخیر ہوگی کیونکہ شیطان ہرآن یہ چاہتا ہے کہ مخلص بندوں کو راہ راست سے بھٹکادے۔ اگر انسان کا ایمان پختہ ہوجائے گا توکبھی بھی شیطان کی سازش کا شکار نہیں ہوگا۔
۲) عدالتِ الٰہی، جبر اور تفویض۲۔۱) — تفویض کا مفہومخداوندعالم کی حکمت و دانائی سے ماوراء ہے کہ وہ تمام امور بندوں کے حوالہ کردے کیونکہ تفویض کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خدا نے کائنات کو خلق کیا اور پھر اس کو اسی کے حال پر چھوڑ دیا، یہ چیز خدا وندعالم کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: ’’خداوندعالم حکیم ،دانااورعادل ہے؛ وہ کبھی بھی اپنے بندوں کو کسی گناہ کے لئے مجبور نہیں کرتا؛ خداوندعالم نے خود بنی آدم سے خطاب کرتے ہوئے حدیث قدسی میں فرمایا ہے: ’’اے بنی آدم! میں اس بات کا حق رکھتا ہوں کہ تم میرے لئے نیک اعمال انجام دو کیونکہ میں نے جو تمہیں قدرت دی ہے تم اسی قدرت کے ذریعہ نیک اعمال انجام دیتے ہو۔ (کیا یہ صحیح ہے کہ) جن اعضاوجوارح کو میں نے اعمال صالحہ کے لئے خلق کیا ہے ان سے گناہ انجام دیئے جائیں!!‘‘۔[20] ہرصانع اپنی مصنوع کو اپنے ارادہ کے مطابق چلانا چاہتا ہے، خداوند عالم کل کائنات کا صانع ہے توکیا اسے یہ اختیار نہیں ہے کہ اپنی مصنوع کو اپنے ارادہ کے مطابق دیکھنا چاہے؟ جی ہاں! خداوند عالم کو مکمل اختیار ہے، انسان کو ایک محدود اختیار دیا گیا ہے لیکن خداوندعالم مختارِ کُل ہے، وہ ہرگزیہ نہیں چاہے گا کہ اس کی مخلوق کجروی کا شکار ہوجائے؛ یہی سبب ہے کہ اس نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو مبعوث کرنے کے بعد امامت کا سلسلہ جاری کیا جس کی ایک کڑی آج بھی پردۂ غیب میں ہے اور بادلوں میں سورج ہونے کی مانند قوم کو مستفیض فرمارہے ہیں۔ دوسرے مقام پر امام رضا (علیہ السلام) نے اس طرح ارشاد فرمایا: ’’خداوند عالم نے اپنے بندوں کو بااختیار خلق فرمایا ہےاور ان کو مہلت دی ہے کہ اگر غلطی سے کوئی گناہ انجام دے دیا ہے تو بارگاہ ایزدی میں صدق دل سے توبہ و استغفار کریں تاکہ وہ گناہ محو ہوجائے اور خدا کی عدالت میں پاک صاف حاضر ہوں‘‘۔[21] خدا وندعالم نظافت کو پسند فرماتا ہے اور اپنے بندوں کو پاک صاف دیکھنا چاہتا ہے، پاکیزگی دو طرح کی ہوتی ہے: ایک تو ظاہری دوسرے باطنی، خداوندعالم دونوں قسم کی پاکیزگی کو اپنے بندوں میں دیکھنا چاہتا ہے اور بعثت کا مقصد بھی یہی تھا۔ ۲۔۲) — تفویض کا مطلباگرپوری کائنات کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا لہٰذا تفویض کے حقیقی مطلب کو سمجھنے کے لئے باب العلم پر دستک دیتے ہیں، ہمیں سمجھانے کی خاطر امام رضا (علیہ السلام) نے اس طرح ارشاد فرمایا: ’’خداوندعالم نے تمام دینی امور کو اپنے رسولؐ کے حوالہ کرتے ہوئے سورۂ حشرآیت؍۷ میں فرمایا: ’’وَمَا اَتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا‘‘ میرا رسول تمہیں جو چیز دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ لیکن خلق کرنا اور رزق عطا کرنا اپنے رسول کے حوالہ نہیں کیا بلکہ اس کو اپنی ذات سے مخصوص رکھاجیسا کہ سورۂ روم آیت؍۴۰ میں ارشاد ہوا: ’’اَللہُ اللَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ‘‘ وہ اللہ وہی ہے جس نے تمہیں خلق فرمایاپھر تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا‘‘۔ ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ تفویض کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے موت و حیات اور رزق کے علاوہ تمام دینی امور اپنے رسولؐ کے حوالہ کردیئے ہیں، حالانکہ انبیاء و ائمہ نے بھی مردوں کو زندہ کیا ہے لیکن یہ زندہ کرنا بھی ارادۂ الٰہی کے تحت تھا، بغیر ارادۂ الٰہی کے ایک پتہ نہیں ہل سکتا تو موت و حیات جو خدا وند عالم کا خاصّہ ہے ، وہ کس طرح انجام پاسکتا ہے!۔ ۲۔۳) — جبر کا مفہومجبر کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ خداوندعالم، انسان پر ایسی تکالیف عائد کرے جو اس کے امکان میں نہ ہوں، ایسے واجبات کا حکم دے جن کی ادائیگی پر بندے قادر نہ ہوں اور یہ امر خداوندحکیم سے بعید ہے۔ امام رضا (علیہ السلام) نے اس کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’خداوندعالم عادل مطلق ہے، وہ ایسا کیسے کرسکتا ہے جب کہ خود قرآن میں فرماتا ہے: ’’لَایُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا‘‘ وہ اپنے بندوں کو ان کی استطاعت کے پیش نظر ہی تکلیف دیتا ہے ؛ میرے(امام رضا ؑکے) والد(امام کاظم ؑ)نے اپنے بابا(امام صادق ؑ)سے روایت نقل کی ہے: ’’جو شخص یہ گمان کرتا ہو کہ خدا انسان پر تکلیف مالایطاق نافذکرتا ہے تو ایسے بدگمان کے ہاتھ کا ذبیحہ بھی مت کھاؤ، اس کی گواہی کو بھی قبول نہ کرو، اسے زکات بھی نہ دو اور اس کی امامت میں نماز بھی مت پڑھو‘‘۔[22] اس قول مبارک سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خدا کی جانب سے جبر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات پر اعتقاد تو دور کی بات ہے، اگر صرف گمان بھی کیا جائے تو عادل شخص کی عدالت کو خطرہ لاحق ہوجاتاہے۔ ۲۔۴) — غالی اور مفوضہان دونوں کا ساتھ تذکرہ کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ ان دونوں میں گہرا رابطہ ہے یعنی غالی مفوضہ جیسے ہیں اور مفوضہ غالی جیسے ہیں۔ غالی یعنی وہ شخص جو ائمہ اطہار ؑ کو خدا کے مرتبہ تک پہنچادیتا ہے اور یہ فکرغلو، دشمن کی سازش کا ایک تیر تھا جودشمن کی کمان سے روانہ ہوکر سادہ لوح شیعوں کے ذریعہ مذہب تشیع کےجگر کو پارہ پارہ کر رہا ہے۔ مفوضہ یعنی وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خدا نے تمام امورکو بندوں کے حوالہ کردیا ہے، اس نے کائنات کو بناکر خود اسی کے اوپر چھوڑ دیا ہے کہ جیسے چاہے زندگی گزارے۔ امام رضا (علیہ السلام) نے ان دونوں کی شرعی حیثیت کے متعلق فرمایا: ’’یہ دونوں فرقے لعنتی ہیں، ان کے ساتھ کسی قسم کا رشتہ رکھنا، ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کو امین سمجھنا یا ان کی باتوں کی تصدیق کرناوغیرہ ایسا گناہ ہے کہ انسان کو دائرۂ ولایت الٰہی سے خارج کردیتاہے؛ روایات میں غالی کو کافر اور مفوضہ کو مشرک سے تعبیر کیاگیا ہے‘‘۔[23]
منابع و مآخذ: ۱۔ قرآن کلام اللہ مجید ۲۔ جزائری، سید نعمت اللہ، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، اشاعت اول، قم، ۱۴۰۴ھ۔ ۳۔ حکیمی، محمد رضا، الحیاۃ، دفتر نشرفرہنگ اسلامی، تہران، ۱۳۸۰ش۔ ۴۔ خمینی، روح اللہ، توضیح المسائل، انتشارات اسلامی، اشاعت اول، قم، ۱۴۰۹ھ۔ ۵۔ شریف القرشی، باقر، پژوہشی دقیق در زندگی امام علی بن موسی الرضا ؑ، اشاعت اول، تہران، ۱۳۸۲ش۔ ۶۔ شعیری، تاج الدین، جامع الاخبار، انتشارات رضی، اشاعت اول، قم، ۱۴۰۵ھ۔ ۷۔ ابن بابویہ قمی، محمد بن علی(شیخ صدوق)، التوحید، انتشارات اسلامی، اشاعت اول، قم، ۱۳۹۸ش۔ ۸۔ ابن بابویہ قمی، محمد بن علی(شیخ صدوق)، علل الشرائع، داوری، اشاعت اول، قم، بغیر تاریخ۔ ۹۔ ابن بابویہ قمی، محمد بن علی(شیخ صدوق)، عیون اخبار الرضا ؑ، نشر جہان، اشاعت اول، تہران، ۱۳۷۸ش۔ ۱۰۔ ابن بابویہ قمی، محمد بن علی(شیخ صدوق)، آمالی، اشاعت پنجم، بیروت، ۱۴۰۰ھ۔ ۱۱۔ ابن بابویہ قمی، محمد بن علی(شیخ صدوق)، معانی الاخبار، انتشارات اسلامی، اشاعت اول، قم، ۱۴۰۳ھ۔ ۱۲۔ ابن بابویہ قمی، محمد بن علی(شیخ صدوق)، الخصال، انتشارات اسلامی، اشاعت اول، قم، ۱۳۶۲ش۔ ۱۳۔ ابن بابویہ قمی، محمد بن علی(شیخ صدوق)، کمال الدین و تمام النعمۃ، تہران، ۱۳۹۵ش۔ ۱۴۔ ابن بابویہ قمی، محمد بن علی(شیخ صدوق)، من لا یحضرہ الفقیہ، انتشارات اسلامی، اشاعت اول، قم ۱۴۰۴ھ۔ ۱۵۔ طباطبائی، محمد حسین، سنن النبیؐ، اشاعت ہفتم تہران، ۱۳۷۸ش۔ ۱۶۔ طباطبائی، محمد حسین، تفسیر المیزان، انتشارات اسلامی، اشاعت اول، قم، ۱۴۱۷ھ۔ ۱۷۔ طبرسی، احمدبن علی، الاحتجاج علیٰ اہل اللجاج، نشرمرتضیٰ، اشاعت اول، مشہد، ۱۴۰۳ھ۔ ۱۸۔ عطاردی، عزیز اللہ، مسند الامام الرضا ؑ، اشاعت اول، مشہد، ۱۴۰۶ھ۔ ۱۹۔ کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، اشاعت دوم، تہران، ۱۳۶۲ش۔ ۲۰۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تہران، بغیر تاریخ۔
[1] ۔ سورۂ حشر ؍ ۲۲۔ [2] ۔ سورۂ حشر ؍ ۲۲۔ [4] ۔ کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۱۰۵۔ .[5] محمد تقی مجلسی، روضۃ المتقین، ج۱۳، ص۲۷۳۔ سید عبدالحسین شرف الدین، تأویل الآیات، ص۲۲۷، ذیل تفیسر سورۂ یونس آیت؍۹۴۔ سید هاشم بحرانی، مدینۃ المعاجز ،ج۱، ص۱۶۳و طبع جدید ج۲، ص۴۳۹، ح۶۶۳۔ حسن بن سلیمان حلی، مختصر البصایر ، ص۱۲۵۔ حسن بن سلیمان حلی، المحتضر، ص۳۸۔ [6] ۔ اس بات پر غور کرنا بھی ضروری ہے کہ انسانی اعمال میں خداوند عالم کے ارادہ کا عمل دخل یقینی ہے، بغیر ارادۂ الٰہی کے کوئی عمل وقوع پذیر نہیں ہوسکتا۔(ماخوذ از: پژوھشی دقیق در زندگانی امام رضا ؑ، باقر قرشی، ج۱،ص۴۱۵)۔ [7] ۔ سورۂ بقرہ ؍ آیات ۳ سے ۵ تک۔ [8] ۔ کلینی، محمد یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۹۹۔ [9] ۔ قرشی،محمد باقر، پژوہشی در زندگانی امام علی بن موسیٰ الرضا ؑ، ج۱، ص۲۱۲۔ [10] ۔کلینی، محمد یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۷۸۔ [11] ۔ کلینی، محمد یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۷۸ و ص۸۸۔ [12] ۔ قمی، محمد بن بابویہ(شیخ صدوق)، عیون اخبار الرضا ؑ، ج۲، ص۱۳۴۔ [13] ۔ طبرسی، احمدبن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۳۹۷۔ [14] ۔ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج۱، ص۱۴۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا ؑ، ج۲، ص۷۵۔ [15] ۔ کلینی، محمد یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۱۰۹۔ [16] ۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا ؑ، ج۲، ص۲۵۰۔ [17] ۔ سورۂ بقرہ؍۳۰۔ عطاردی، عزیز اللہ، مسند الامام الرضا ؑ، ج۱، ص۳۱۔ [18] ۔ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج۱، ص۱۱۹۔ [19] ۔ عطاردی، عزیز اللہ، مسند الامام الرضا ؑ، ج۱، ص۴۰۔ [20] ۔ کلینی، محمد یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۱۵۷۔ عطاردی، عزیز اللہ، مسند الامام الرضا ؑ، ج۱، ص۳۵۔ [21] ۔ ماخوذ از: مسند الامام الرضا ؑ، عطاردی، ج۱، ص۳۱۹۔ [22] ۔ عطاردی، عزیز اللہ، مسند الامام الرضا ؑ، ج۱، ص۳۱۹۔ [23] ۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا ؑ، ج۲، ص۲۰۳۔ مجلسی،محمدباقر، بحارالانوار، ج۲۵، ص۳۲۸۔
+ نوشته شده در چهارشنبه بیست و ششم اردیبهشت ۱۳۹۷ساعت 14:24  توسط ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
|
|